کراچی میں بلڈر مافیا کی دردناک کہانیاں موجود ہیں ان میں ایک پیش کررے ہیں جسکا سدباب ضروری ہے کوئی پندرہ بیس سال پہلےبیرون ملک مقیم ایک پاکستانی نے نارتھ ناظم آباد بلاک این میں ایک پروجیکٹ میں موجودہ مالک کی شراکت دار میں لگ بھگ 24 لاکھ میں ایک فلیٹ بک کرایا تھا مگر حصہ داروں میں مبینہ اختلافات کی بناء پر پروجیکٹ شروع نہ کیا گیا اور قریب دو سال کے بعد موجودہ مالک ایوب کی ملکیت میں باسط ٹاور کے نئے نام سے پراجیکٹ شروع کیا گیا اور بکنگ کی ادا رقم واپس نہ لینے پر ڈٹ جانے پر نئی بکنگ پرانی بکنگ سے دوگنی قیمت میں بک کی گئی جوکہ نئی قیمت سے چار پانچ لاکھ کم تھی۔
اس کڑوا گونٹ پینے کے بعد فلیٹ کی مکمل ادائیگی مقررہ وقت میں کی گئی اسی وجہ سے قبضہ دیا گیا سب لیز پر پابندیوں کی وجہ سے سب لیز کا معاملہ میں تاخیر ہوئیں اور جب اسکے لیے بعد میں رابطہ کیا گیا تو سب لیز دینے کے لیے ایک حیران کن شرط سامنےآئی فلیٹ کے ساتھ زینے سے متصل چھوٹی جگہ کو فلیٹ کی سب لیز سے مشروط کردیا گیا اور یہ کہا گیا کہ اس کے کاغذات حاصل کرلیے گئے ہیں جو بکنگ کے وقت اور شاید تکمیل کے وقت بھی نہ تھے اسی وجہ سے قبضہ دیتے وقت اس کو مشروط نہ کیا گیا دوسری طرف اس چھوٹی سی جگہ کے لیے فلیٹ کی کل ادا قیمت سے آدھی قیمت کا مطالبہ کیا جارہا یہ پہلو بھی غور طلب ہے یہ جگہ تعیراتی تکنیکی اصولوں کے تناظر میں بھی جان و مال کےلیے محفوظ نہیں پہلے فلور کے ساتھ مذکورہ جگہ کی بالائی جگہ سارے فلور کے لیے اوپن ہے اور نسلہ ٹاور جیسے کاغذات کو حاصل کرکے تجاوازت بیچنے پر اصرار کیا جارہا ہے آج بھی پیسے لیکر کاغذات حاصل کیے جاتے ہیں اور جب خرایدر مذمت کرے تو پھر اس کے لیے مسائل کھڑے کیے جاتے ہیں بقول اس بلڈرز کے یہ نئے پروجیکٹ باسط گرینڈ میں بھی اس جیسی تجاوازت کو ایکسٹرا لینڈ کے طور بیچ رہا ہے اس وقت جب ملک کو سرمائے کی ضرورت ہے تب بیرون ملک مقیم پاکستانی محنت کشوں کے لیے بہت حوصلے شکنی کی جارہی ہیں, جہاں اس ملک میں ریاست بیرون ملک پاکستانیوں کو سرمائے لانے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے وہاں یہ بلیک میلنگ قومی مفاد کے لیے بھی زہر قاتل ہےاور نشاندہی ہونے پر فوری اقدام کی ضرورت ہے ۔
یہاں یہ بات بتانا بھی اہم ہے بلڈرز ناجائز مطالبوں کو کور کرنے کے لیے’آباد’ جیسی تنظیم کے پیلٹ فارم کا حصہ بنتے ہیں آباد کو چاہیے ایسے لوگوں کو تنظیم کا کور لینے سے باز رکھیں
پاکستان زندہ باد پائندہ باد۔