
کراچی بھر میں آوارہ کتوں کی بہتات نے شہریوں کو شدید خوف اور اذیت میں مبتلا کر دیا ہے۔ گلی محلوں، شاہراہوں، بس اسٹاپس اور رہائشی علاقوں میں آوارہ کتوں کے جھنڈ دندناتے پھر رہے ہیںجس کے باعث شہری خصوصاً خواتین، بچے اور بزرگ خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔
رات کے اوقات میں صورتحال مزید ہولناک ہو جاتی ہے۔ آوارہ کتے اچانک موٹر سائیکل سواروں پر حملہ کر دیتے ہیں، جس سے کئی افراد گھبراہٹ میں گر کر زخمی ہو جاتے ہیں جبکہ متعدد واقعات رپورٹ ہی نہیں ہو پاتے۔ آوارہ کتوں کے کاٹے کا بدترین واقعہ تین روز قبل ضلع کورنگی کے علاقے جمعہ گوٹھ میں سامنے آیاجہاں ایک ہی دن میں ایک مبینہ طور پر ریبیز زدہ کتے نے 20شہریوں کو بری طرح نوچ ڈالا۔
متاثرہ افراد کو شدید زخم آئے، جسم کے مختلف حصوں سے گوشت نوچے جانے کے باعث خون میں لت پت شہریوں کو فوری طور پر انڈس اسپتال منتقل کیا گیا۔ انڈس اسپتال کے شعبۂ متعدی امراض کی سربراہ ڈاکٹر نسیم صلاح الدین نے جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ تین روز قبل انڈس اسپتال میں بدترین افراتفری تھی۔ ایک ہی ریبیز زدہ کتے کے کاٹے سے متاثرہ 20 سے زائد مریض لائے گئے، جن کے زخم نہایت سنگین تھے۔
وہ کتا لوگوں کے ساتھ ساتھ دیگر کتوں کو بھی کاٹتا پھر رہا تھا، جبکہ گزشتہ روز ہی ایک 17 سالہ لڑکی ریبیز کے باعث انڈس آئی اور جانبر نہ ہو سکی۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ کراچی کے تقریباً تمام اضلاع میں آوارہ کتوں کی بھرمار ہو چکی ہے، لیکن بلدیاتی ادارے اور متعلقہ انتظامیہ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
نہ مؤثر ڈاگ کنٹرول مہم نظر آتی ہے اور نہ ہی ریبیز سے بچاؤ کے لیے خاطر خواہ ویکسینیشن کا انتظام کیا گیا ہے، حالانکہ سندھ میں ریبیز کنٹرول پروگرام موجود ہے جو لوکل گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹ، حکومتِ سندھ کا ایک باقاعدہ منصوبہ ہے، جس کا مقصد کتوں کے ذریعے پھیلنے والی ریبیز سے انسانی اموات کا خاتمہ بتایا جاتا ہے۔
اس پروگرام کے تحت دعویٰ کیا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں آزمودہ اور مؤثر طویل المدتی حکمتِ عملی یعنی آوارہ کتوں کی ویکسینیشن اور نس بندی کے ذریعے ریبیز کی روک تھام کی جائے گیاور اس مقصد کے لیے سائنسی طریقۂ کار کے تحت ماس ڈاگ ویکسینیشن، عوامی آگاہی مہمات، موبائل ویکسینیشن ٹیموں کی تعیناتی، پالتو و کمیونٹی کتوں کو مفت ویکسین، ویکسین شدہ کتوں پر واضح نشانات اور کم از کم 70 فیصد کتوں کو حفاظتی ٹیکے لگا کر ہرڈ امیونٹی پیدا کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں تاہم زمینی حقائق یہ ہیں کہ کراچی سمیت سندھ کے کسی بڑے شہر یا متاثرہ علاقے میں یہ اقدامات عملی طور پر نظر نہیں آتے، نہ موبائل ٹیمیں دکھائی دیتی ہیں، نہ ویکسین شدہ کتوں کی نشاندہی، اور نہ ہی کوئی مؤثر نس بندی یا آگاہی مہم دیکھنے میں آتی ہے
