کینیڈا کی حکومت نے ملک میں گھروں رہائشی عمارتوں کی شدید قلت کے پیش نظر بیرونی ملکوں سے حصول تعلیم کے لیے آنے والے طالب علموں پر مختلف نوعیت کی پابندیاں لگانے کا اعلان کیا ہے۔
پیر کے روز جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی طالب علموں کی کینیڈا میں رہائش پر دو سال کی پابندی عائد کی جا رہی ہے جس کا اطلاق فوری طور پر ہو گا۔
حکومت نے یہ بھی کہا ہے کہ مختلف شعبوں کے پوسٹ گریجوایٹ طالب علموں کو تعلیم مکمل ہونے کے بعد اب ورک ویزے جاری نہیں کیے جائیں گے اور انہیں اپنے ملک واپس جانا ہو گا۔
اس سے قبل اکثر شعبوں میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد حکومت انہیں کچھ مدت تک کینیڈا میں کام کرنے کے لیے ورک ویزہ جاری کرتی تھی۔
حکومت کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کا مقصد ملک میں گھروں کی قلت سے پیدا ہونے والے بحران سے نمٹنا ہے۔
طالب علموں کے لیے پرکشش مراعات کے باعث ہر سال لاکھوں طالب علم کینیڈا کا رخ کرتے ہیں جہاں وہ نسبتاً کم خرچ سے نہ صرف اپنی تعلیم مکمل کرتے ہیں بلکہ بعد ازاں ان کے لیے کینیڈا میں ملازمت اور بعض صورتوں میں مستقل رہائش حاصل کرنے کے مواقع بھی موجود ہوتے ہیں۔
بین الاقوامی طالب علم، کینیڈا کی یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔
غیر ملکی طالب علموں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے ملک کے اندر مکانوں اور رہائشی عمارتوں کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے جس سے مقامی آبادی کے مسائل بڑھ گئے ہیں اور کرائے ان کی پہنچ سے بہت اوپر چلے گئے ہیں۔
امیگریشن کی وزارت کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تازہ پابندیوں کے نتیجے میں سال 2024 میں بین الاقوامی طالب علموں کے لیے تقریباً تین لاکھ 60 ہزار اجازت نامے جاری کیے جائیں گے۔ یہ تعداد گزشتہ سال کے مقابلے میں 35 فی صد کم ہے۔
امیگریشن کے وزیر مارک ملر نے کہا کہ اس پابندی کے نفاذ کے لیے وفاقی حکومت صوبوں کے ساتھ مل کر کام کرے گی، جو تعلیمی نظام کے نگران ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس پابندی کی بنیادی وجہ کالجوں میں داخلہ لینے والے بین الاقوامی طالب علموں کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ وہ اکثر پرائیویٹ جگہوں پر ٹہرتے ہیں اور انہیں کم سہولتوں کے لیے زیادہ ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔
ملر کا کہنا تھا کہ اس اقدام سے رہائشی عمارتوں اور سروسز پر دباؤ کم کرنے میں مدد ملے گی۔